قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے:
*اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِۚ-وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِۚ-اُولٰٓىٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠(۲۶)*
(سورة نور، آیت#26)
ترجمہ کنز الایمان :۔
گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں وہ ان باتوں سے بَری ہیں جو لوگ کہہ رہے ہیں ۔ان (پاکیزہ لوگوں ) کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔۔
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ گندے کے لئے گندہ لائق ہے، گندی عورت گندے مرد کے لئے اورگندہ مرد گندی عورت کے لئے اور گندہ آدمی گندی باتوں کے درپے ہوتا ہے اور گندی باتیں گندے آدمی کا وَطیرہ ہوتی ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کیلئے ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کیلئے ہیں۔۔ وہ پاک مرد اور عورتیں جن میں سے حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا اور حضرت صفوان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ہیں، ان باتوں سے بَری ہیں، جو یہ تہمت لگانے والے کہہ رہے ہیں۔۔ ان پاکیزہ لوگوں کے لیے بخشش اور جنت میں عزت کی روزی ہے۔
لہذا
جو شخص پاکدامنی کی زندگی گزارتا ہے اسے دنیا میں نقد انعام یہ ملتا ہے کہ اس کے اہل خانہ کو اللہ تعالی پاکدامنی کی زندگی نصیب فرماتا ہے۔
حدیث پاک میں آیا ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے شکایت پیش کی کہ مجھے اپنی بیوی کے کردار پر شبہ ہے، یہ بات میرے لیے سخت اذیت اور پریشانی کا سبب ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، کہ تم دوسرے لوگوں کی عورتوں کے بارے میں پاکیزگی اختیار کرو گے، تو لوگ تمہاری عورتوں کے بارے میں پاکیزگی اختیار کریں گے۔۔
(الجامع الصغير: ج، 2 ص، 156)
اس سے معلوم ہوا کہ ادلے کا بدلہ ہوتا ہے، زنا کار شخص فقط فحش عمل ہی نہیں کرتا بلکہ دوسروں کا مقروض ہو جاتا ہے اور یہ قرض اس کے اہل خانہ یا اولاد میں سے کوئی نہ کوئی چکا دیتا ہے، اصول یہی ہے کہ گناہ کی سزا اس عمل کے جنس سے ہوا کرتی ہے، پس جو شخص دوسروں کی عزت برباد کرے گا دوسرے اس کی عزت برباد کریں گے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور اشعار ہیں.
*اشعار کا اردو ترجمہ:*
پاکدامن رہو تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی، اور بچو اس سے جو مسلمان کے لائق نہیں، بے شک زنا قرض ہے، تو اگر تو نے اس کو قرض لیا تو ادائیگی تیرے گھر والوں سے ہو گی، اس کو جان لے، جو زنا کرے اس سے زنا کیا جائے گا اگرچہ اس کی دیوار سے، اے شخص اگر تو عقلمند ہے تو اس کو جان لے.۔
تفسیر روح البیان میں ایک قصہ منقول ہے کہ:
شہر بخارا میں ایک جیولر کی مشہور دکان تھی، اس کی بیوی نیک سیرت اور خوبصورت تھی، ایک سقّا (پانی لانے والا) ان کے گھر تیس سال تک پانی لاتا رہا، بہت بااعتماد شخص تھا، ایک دن اس سقا نے پانی ڈالنے کے بعد اس جیولر کی بیوی کا ہاتھ پکڑ کر شہوت سے دبایا اور چلا گیا، عورت بہت غمزدہ ہوئی کہ اتنی مدت کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی، اس کی آنکھوں میں سے آنسو بہنے لگے، اسی دوران جیولر کھانا کھانے کے لیے گھر آیا تو اس نے بیوی کو روتے ہوئے دیکھا، پوچھنے پر صورتحال کی خبر ہوئی تو جیولر کی آنکھوں میں سے بھی آنسو آگئے، بیوی نے پوچھا کیا ہوا، جیولر نے بتایا کہ آج ایک عورت زیور خریدنے آئی، جب میں اسے زیور دینے لگا تو اس کا خوبصورت ہاتھ مجھے پسند آیا میں نے اس اجنبیہ کے ہاتھ کو شہوت سے دبایا، یہ میرے اوپر قرض ہو گیا تھا لہذا سقا نے تمہارے ہاتھ کو دبا کر قرض چکا دیا، میں تمہارے سامنے سچی توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گا، البتہ یہ مجھے ضرور بتانا کہ کل سقّا تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے، دوسرے دن سقا پانی ڈالنے کیلئے آیا تو اس نے جیولر کی بیوی سے کہا، میں بہت شرمندہ ہوں کل شیطان نے مجھے ورغلا کر برا کام کروا دیا، میں نے سچی توبہ کر لی ہے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا، عجیب بات ہے کہ جیولر نے غیر عورتوں کو ہاتھ لگانے سے توبہ کی تو غیر مردوں نے اس کی بیوی کو ہاتھ لگانے سے توبہ کی۔۔
اور
ایک بادشاہ کے سامنے کسی عالم نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ زانی کے عمل کا قرض اسکی اولاد یا اہل خانہ میں سے کسی نہ کسی کو چکانا پڑتا ہے، اس بادشاہ نے سوچا کہ میں اسکا تجربہ کرتا ہوں، اس کی بیٹی حسن و جمال میں بےمثال تھی، اس نے شہزادی کو بلا کر کہا کہ عام سادہ کپڑے پہن کر اکیلی بازار میں جاؤ، اپنے چہرہ کھلا رکھو اور لوگ تمہارے ساتھ جو معاملہ کریں وہ ہو بہو آ کر مجھے بتاؤ، شہزادی نے بازار کا چکر لگایا مگر جو غیر محرم شخص اس کی طرف دیکھتا تو شرم و حیا کے مارے نگاہیں پھیر لیتا، کسی مرد نے اس شہزادی کے حسن و جمال کی طرف دھیان ہی نہ دیا، سارے شہر کا چکر لگا کر جب شہزادی اپنے محل میں داخل ہونے لگی، تو راہداری میں کسی ملازم نے محل کی خادمہ سمجھ کر روکا، گلے لگایا، بوسہ لیا اور بھاگ گیا، شہزادی نے بادشاہ کو سارا قصہ سنایا، بادشاہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، کہنے لگا کہ میں نے ساری زندگی غیر محرم سے اپنی نگاہوں کی حفاظت کی ہے، البتہ ایک مرتبہ میں غلطی کر بیٹھا اور ایک غیر محرم لڑکی کو گلے لگا کر اس کا بوسہ لیا تھا، پس میرے ساتھ وہی کچھ ہوا جو میں نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا، سچ ہے کہ زنا ایک قصاص والا عمل ہے جس کا بدلہ ادا ہو کر رہتا ہے۔۔
(روح المعانی للآلوسی: 68/15)
ہمیں مندرجہ بالا واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ایسا نہ ہو کہ ہماری کوتاہیوں کا بدلہ ہماری اولادیں چُکاتی پھریں، ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے گھر کی عورتیں پاکدامن بن کر رہیں، اسے چاہیے کہ وہ غیر محرم عورتوں سے بے طمع ہو جائے، اسی طرح جو عورتیں چاہتی ہیں کہ ہمارے خاوند نیکوکاری کی زندگی گزاریں، بےحیائی والے کاموں کو چھوڑ دیں، انہیں چاہیے کہ وہ غیر مردوں کی طرف نظر اٹھانا بھی چھوڑ دیں تاکہ پاکدامنی کا بدلہ پاکدامنی کی صورت میں مل جائے، رہ گئی بات کہ اگر کسی نے پہلے ہی کبیرہ گناہ کیا ہے تو توبہ کا دروازہ کھلا ہے، سچی توبہ کے ذریعہ اپنے رب کو منائیں تاکہ دنیا میں قصاص سے بچ جائیں اور آخرت کی ذلت سے چھٹکارا پائیں۔۔
واللہ تعالیٰ أعلم ورسولہ أعلم عَزَّوَجَلَّ و ﷺ
0 تبصرے