Hazrat Umar Bin Auddulaziz رحمۃاللہ

 


خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ

تاریخ میں ایسے بہت کم حاکم گزرے ہیں کہ جنہوں نے تاریخ میں ناقابلِ تسخیر نقوش رقم کیے .خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ان میں سے ایک ہیں. اِنہیں پہلا مجدد بھی کہا جاتا ہے. چاروں خلفائے راشدین کے بعد خلیفہ عمر بن عبدالعزیز بہترین حاکم تصور کئے جاتے ہیں. بلکہ بعض جگہ انہیں اسلام کا پانچواں خلیفہ بھی کہا گیا ہے.
رومن شہنشاہ نے جب آپ رحمۃ اللہ کے انتقال کی خبر سنی تو کہا "ایک نیک شخص کا انتقال ہو گیا. کسی ایسے سنیاسی کو دیکھ کر شاید ہی مجھے حیرت ہو کہ جس نے دنیا چھوڑ کر خود کو خدا کی رضا کے حوالے کر دیا ہو لیکن میں ایسے شخص کو دیکھ کر حیرت ذدہ ہوں کہ جس کے پاس دنیا کی ہر آسائش تھی پھر بھی اس نے ان آسائشات سے آنکھیں بند کر کے تقویٰ کی زندگی گزاری."
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ نے صرف 30 ماہ خلافت کی لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا. ان کا دور خلافتِ امویہ کا سنہرا ترین دور ہے.

عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ #مصر کے گورنر عبداللہ عزیز بن مروان کے بیٹے تھے اور آپ کی والدہ خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں.
عمر بن عبدالعزیز 63 ہجری (ء682) میں مصر میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے اپنی تعلیم مدینہ میں عبداللہ بن عمر سے حاصل کی.. ء704 میں اپنے والد کی وفات تک وہ مدینہ میں ہی رہے پھر ان کے تایا خلیفہ عبدالمالک نے انہیں اپنے پاس بلا لیا اور اپنی بیٹی فاطمہ سے ان کا نکاح کر دیا . ء706 میں وہ نئے خلیفہ عبدالمالک کے بیٹے ولید بن عبدالمالک کے حکم پر مدینہ کے گورنر بن گئے.

خلیفہ ولید اور ان کے بعد خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک کے دورِ خلافت میں عمر بن عبدالعزیز مدینہ کے گورنر رہے لیکن جب خلیفہ سلیمان بیمار ہوۓ تو انہوں نے اپنے مشیر کے مشورے پر اپنے چچا ذاد عمر بن عبدالعزیز رحمۃاللہ کو اپنا ولی عہد نامزد کر دیا کیونکہ ان کے اپنے بچے ابھی چھوٹے تھے.

اپنی خلیفہ کی نامزدگی کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے منبر پر چڑھ کر لوگوں سے خطاب کیا کہ
"اے لوگو، میری چاہت اور آپ کی رضامندی کے بغیر مجھے آپ کا خلیفہ نامزد کر دیا گیا ہے، میں آپ لوگوں کو اپنی بیت سے آزاد کرتا ہوں کہ آپ جسے مناسب سمجھیں اُسے اپنا خلیفہ نامزد کر لیں."
لوگوں نے جواب دیا
"اے عمر، ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے، ہم آپ ہی کو اپنا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں. "
عمر نے فرمایا
" اے لوگو، تو پھر تب تک میری تابعداری کرنا جب تک میں اللہ کی تابعداری کرتا رہوں، اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم لوگوں پر میری تابعداری واجب نہیں."

عمر بن عبدالعزیز نہایت ہی پرہیزگار انسان تھے. انہوں نے آسائشوں کی بجائے سادگی کو ترجیح دی. خلیفہ بننے کے بعد انہوں نے اپنی تمام دولت بیت المال میں جمع کروا دی اور محل کی بجائے ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے کو ترجیح دی. وہ شاہی لباس کی بجائے عام کپڑے پہنتے اور خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرح عوام میں چلتے پھرتے پہچانے نہیں جاتے.
اپنی خلیفہ کی نامزدگی کے بعد انہوں نے اپنی شہزادوں کی عیش و عشرت کی زندگی کو  خیر باد کہہ دیا اور ان کی زوجہ نے بھی ان کے کہنے پر اپنے والد سے ملنے والے تمام زیورات بیت المال میں جمع کروا دیئے.
عمر بن عبدالعزیز وہ پہلے خلیفہ ہیں جنہوں نے دوسری زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کروایا ، #محمد بن قاسم کے سندھ فتح کرنے کے 6 سال بعد خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ء718 میں #سندھ کے حکمران کے کہنے پر قدیم سندھی زبان میں قرآن کا ترجمہ کروا کر سندھ بھیجا.

ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ان کی اِصلاحات کے نتیجے میں صرف فارس سے آمدنی 28 ملین درہم سے بڑھ کر 124 ملین درہم ہو گئ.
انہوں نے ایران، خراسان اور شمالی افریقہ میں بہت وسیع پیمانے پر کام کرواۓ جس میں نہروں، سڑکوں، مسافروں کے لیے پناہ گاہوں اور میڈیکل ڈسپنسریوں کی تعمیر شامل ہے.
ان کے چھوٹے سے دورِ خلافت میں لوگ اتنے خوشحال ہو گئے کہ ڈھونڈنے سے بھی انہیں کوئی خیرات کا مستحق نہ ملتا.
عمر بن عبدالعزیز کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے سرکاری طور پر احادیث کو جمع کرنے کا حکم جاری کیا، ابو بکر ابنِ محمد اور ابنِ شہاب الزہری نے یہ فریضہ سرانجام دیا.
حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق انہوں نے چین اور تبت میں اسلام کی تبلیغ کے لیے اپنے وفد بھیجے. انہی کے دورِ خلافت میں مصر اور فارس میں اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور وہاں کی عوام نے اسلام قبول کیا.
لیکن اس وقت کے شاہی اور امیر تاجروں کی جماعت کو عمر بن عبدالعزیز کی اصلاحات اور برابری، سادگی اور عدل کے قانون شدید ناگوار گزرتے تھے، خلیفہ کے ایک خادم کو رشوت دے کر انہیں زہر دیا گیا، جب عمر بن عبدالعزیز نے زہر کے اثرات محسوس کیۓ تو اپنے خادم سے زہر دینے کا سبب پوچھا تو
خادم نے کہا کہ مجھے اس کام کے لیے ہزار دینار دیۓ گۓ تھے. عمر بن عبدالعزیز نے اس سے وہ رقم لی اور بیت المال میں جمع کروا دی، غلام کو آزاد کیا اور اسے وہ جگہ جلد سے جلد چھوڑنے کو کہا کہ کہیں کوئی اسے مار نہ ڈالے. اور یہ رقم عمر بن عبدالعزیز کی بیت المال میں جمع کروائی گئی آخری رقم تھی.
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ نے ء720 میں ایک کراۓ کے گھر میں وفات پائی. انہوں نے 17 دینار ترکے میں چھوڑے اس وصیت کے ساتھ کہ اس رقم سے گھر کا کرایہ دیا جائے اور ان کی تدفین کے اخراجات پورے کیۓ جائیں.
اللہ ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے..
آمین
نوٹ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
urduadabinfo1.blogspot

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے