Kha Aa K Rukny Thy Rasty Gazal

 


غزل

کہاں آ کے رکنے تھے راستے! کہا موڑ تھا، اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اسے بھول جا

وہ  ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ  برس گئی
دلِ بے خبر میری بات سن، اسے بھول  جا، اسے بھول جا

میں  تو  گم  تھا ترے ہی دھیان میں ، تیری آس، ترے گمان میں
صبا کہ گئی  میرے کان میں، میرے ساتھ آ، اسے بھول جا
کسی آنکھ میں نہی اشکِ غم، ترے بعد کچھ بھی نہی ہے کم
تجھے زندگی نے بھلا دیا، تو بھی مسکرا، اسے بھول جا

کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں میں لہو نہی
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہی خوں بہا، اسے  بھول جا

کیوں اٹا  ہوا ہے غبار میں، غمِ زندگی  کے فشار میں
وہ جو درج تھا تیرے بخت میں، سو وہ ہو گیا اسے بھول جا
نہ وہ آنکھ ہی تیری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی تیرا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لئے؟ تیرا جاگنا اسے بھول جا

یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقین نہ کر
نہی عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ اسے بھول جا

جو بساطِ جاں ہی الٹ گیا، وہ  جو راستے سے پلٹ گیا
اسے روکنے سے حصول کیا،  اسے مت بْلا، اسے بھول جا

تو یہ کس لئے شب ہجر کے اسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم، کوئ اور تھا اسے بھول جا
تجھے چاند بن کے ملا تھا جو،ترے ساحلوں پہ کھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا، سو اتر گیا اسے بھول جا

شاعر: امجد اسلام امجد






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے