Muajzha Best Nazam

 معجزہ 


محبت اور خواہش میں کئی بےنام رشتے ہیں 

مگر جو غور سے دیکھیں 

تو دونوں میں بہت سے فاصلے بھی اس ترح موجود ہیں جیسے 

سمندر ایک ہوتا ہے 

مگر اسکے کنارے اک دوجے سے سرا سر 

اجنبی اور مختلف رستوں کو چھوتے ہیں 

سو ایسا ہے 

سمے کے اس سمندر میں 

جہاں ہر شے بدلتی ہے  

وہاں ہم تم بھی بدلے ہیں، بدلنا تھا 

کہ رشتے بھی ہمارے اشک کی صورت 

بہت آہستگی سے اس طرح کروٹ بدلتے ہیں 

بسا اوقات بستر پہ پڑی چادر پہ سلوٹ تک نہی پڑتی 

نا آنکھوں میں سفر کرتے پرانے رنگ ہی تبدیل ہوتے ہیں 

نہ باتوں کے تسلسل میں کوئی دیوار آتی ہے 


بس اتنا ہے 

کہ خواہش کی بند مٹھی سے وہ ریت جو پل پل

پھسلتی ہے اسی کے بیچ میں شاید وہ جذبہ بھی کہیں ہوتا ہے 

جس کو پیار کہتے ہیں 

محبت نام ہے جس کا 

کہیں ایسا بھی ہوتا ہے 

ہمیں خود اپنے ہاتھوں سے پھسلتی ریت کی 

ریزش کا اندازہ نہی ہوتا 

مگر وہ گرتی رہتی ہے 

کبھی ہم اسکو پھر سے جمع کرنے اور اٹھانے کے لئے 

کوشش بھی کرتے ہیں 

مگر دن رات کی سرکش ہوائیں 

اس قدر مٹی اڑاتی ہیں کہ کچھ بھی ہو نہی پاتا 

یہ دل فریاد تو کرتا ہے مگر رو نہی پاتا 


تو وہ آنسو 

کہ جن کو اس پھسلتی ریت میں بکھری محبت کو 

دوبارہ زندگی دینا تھی اور شاداب کرنا تھا 

نہیں بہتے 

وہی آنکھیں کہ جن میں ہر گھڑی شمعیں سی جلتی تھیں 

انہی چہروں پہ ہوتی ہیں مگر ان میں 

محبت اور تعلق تو پرانی نہی ہوتی 

زمانہ ان کے اندر سے گزر کر تو جانے کس طرف جاتا

کہاں بسرام کرتا ہے 

مگر اس کے غبار راہ میں الجھے ہوئے رستے 

کئی چہرے بدلتے ہیں 

محبت کرنے والے شخص اور انکی محبت بھی 

بدلتے وقت کی یلغار سے بچنے کی خاطر اک 

نئی صورت میں ڈھلتے ہیں 

وفا ہارے ہوۓ میدان سے جو پرچم اٹھاتی ہے 

انھیں لشکر نہی ملتا 

گزرے وقت کے آشوب میں چہرہ بدلتا ہے 

تو پھر پیكر نہی ملتا 

سو جانِ جاں اگر ہم تم

بدلتے وقت کی تیز آندھی میں اگر ابھی تک ایک ہیں 

اور اک دوجے کے لئے بےچین رهتے ہیں

تو شائد یہ ہمارے بخت کی خوبی ہماری خوش نصیبی ہے 

کہ ہم دونوں گزرتے وقت کی سرکش روانی میں 

بہے بھٹکے تو ہیں لیکن 

ہمارے ساحلوں کا رخ کسی لمحے نہی بدلا  

یہ حسن اتفاق ایسا ہے جو قسمت سے ملتا ہے 

بہت کڑواہ سہی مگر یہی سچ ہے 

کہ جو لمحہ گزر جاے 

وہ کتنا بھی مقدس قیمتی۔یا خوبصورت ہو 

کبھی واپس نہی آتا 

محبت اور خواہش اور انکے درمیاں پھیلے ہوے  

بے رحم رشتے بھی انہی چیزوں میں شامل ہیں 

جنہیں یہ وقت کا دریا 

ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے بے نیاز و بے خبر ہو کر 

پرانی ڈائری پچھلے کیلنڈر کی طرح تبدیل کرتا ہے 

اسے اک معجزہ کہیے 

کہ خواہش کے سفر میں ہم نے جتنے موڑ کاٹے 

جس قدر هوار بدلے ہیں 

وہ سب ایک ساتھ بدلے ہیں 

نہ گرتی ریت بدلی ہے نہ اپنے ہاتھ بدلے ہیں 

اسے اک معجزہ کہیے 


Poet: Amjad Islam Amjad









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے